اور آنا گھر میں مرغیوں کا ....... تØ+ریر : مشتاق اØ+مد یوسÙÛŒ
yusufi.jpg
عرض کیا، ''Ú©Ú†Ú¾ بھی Ûو، میں گھر میں مرغیاں پالنے کا روادار Ù†Ûیں۔ میرا راسخ Ø¹Ù‚ÛŒØ¯Û ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ù† کا صØ+ÛŒØ+ مقام پیٹ اور پلیٹ ÛÛ’ اور شاید۔‘‘
''اس راسخ عقیدے میں میری طر٠سے پتیلی کا اور اضاÙÛ Ú©Ø±Ù„ÛŒØ¬ÛŒÛ’Û”â€˜â€˜ انÛÙˆÚº Ù†Û’ بات کاٹی۔
پھر عرض کیا، ''اور شاید ÛŒÛÛŒ ÙˆØ¬Û ÛÛ’ Ú©Û Ûمارے Ûاں کوئی مرغی عمر طبعی Ú©Ùˆ Ù†Ûیں Ù¾ÛÙ†Ú† پاتی۔ آپ Ù†Û’ خود دیکھا Ûوگا Ú©Û Ûماری ضیاÙتوں میں میزبان Ú©Û’ اخلاص Ùˆ ایثار کا Ø§Ù†Ø¯Ø§Ø²Û Ù…Ø±ØºÛŒÙˆÚº اور Ù…Ûمانوں Ú©ÛŒ تعداد اور ان Ú©Û’ تناسب سے لگایا جاتا Ûے۔‘‘
Ùرمایا، ''ÛŒÛ ØµØ+ÛŒØ+ ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ù†Ø³Ø§Ù† روٹی پر ÛÛŒ Ø²Ù†Ø¯Û Ù†Ûیں رÛتا۔ اسے مرغ مسلّم Ú©ÛŒ بھی خواÛØ´ Ûوتی ÛÛ’Û” اگر آپ کا Ø¹Ù‚ÛŒØ¯Û ÛÛ’ Ú©Û Ø®Ø¯Ø§ Ù†Û’ مرغی Ú©Ùˆ Ù…Ø+ض انسان Ú©Û’ کھانے Ú©Û’ لیے پیدا کیا تو مجھے اس پر کیا اعتراض Ûوسکتا ÛÛ’Û” صاØ+ب! مرغی تو درکنار۔ میں تو انڈے Ú©Ùˆ بھی دنیا Ú©ÛŒ سب سے بڑی نعمت سمجھتا ÛÙˆÚºÛ” تازے خود کھائیے۔ گندے Ûوجائیں تو Ûوٹلوں اور سیاسی جلسوں Ú©Û’ لیے دگنے داموں بیچئے۔ یوں تو اس میں، میرا مطلب ÛÛ’ تازے انڈے میں،
Ûزاروں خوبیاں ایسی Ú©Û Ûر خوبی Ù¾Û Ø¯Ù… Ù†Ú©Ù„Û’
مگر سب سے بڑی خوبی ÛŒÛ ÛÛ’ Ú©Û Ù¾Ú¾ÙˆÛÚ‘ سے Ù¾Ú¾ÙˆÛÚ‘ عورت کسی طرØ+ بھی پکائے یقینا مزے دار Ù¾Ú©Û’ گا۔ آملیٹ، نیم برشت، تلا Ûوا، خاگینÛØŒ Ø+لوا۔‘‘
اس Ú©Û’ بعد انÛÙˆÚº Ù†Û’ ایک Ù†Ûایت Ù¾ÛŒÚ†ÛŒØ¯Û Ø§ÙˆØ± گنجلک تقریر Ú©ÛŒ جس کا ماØ+صل ÛŒÛ ØªÚ¾Ø§ Ú©Û Ø§Ù“Ù…Ù„ÛŒÙ¹ اور Ø®Ø§Ú¯ÛŒÙ†Û ÙˆØºÛŒØ±Û Ø¨Ú¯Ø§Ú‘Ù†Û’ Ú©Û’ لیے غیر معمولی Ø³Ù„ÛŒÙ‚Û Ø§ÙˆØ± صلاØ+یت درکار ÛÛ’ جو ÙÛŒ Ø²Ù…Ø§Ù†Û Ù…Ùقود ÛÛ’Û”
اختلا٠کی گنجائش نظر Ù†Û Ø§Ù“Ø¦ÛŒ تو میں Ù†Û’ Ù¾Ûلو بچا کر وار کیا، ''ÛŒÛ Ø³Ø¨ درست! لیکن اگر مرغیاں کھانے پر اتر آئیں تو ایک ÛÛŒ Ù…Ø§Û Ù…ÛŒÚº ڈربے Ú©Û’ ڈربے صا٠Ûوجائیں گے۔‘‘
Ú©ÛÙ†Û’ Ù„Ú¯Û’ØŒ ''ÛŒÛ Ù†Ø³Ù„ مٹائے Ù†Ûیں مٹتی۔ جÛاں تک اس جنس کا تعلق ÛÛ’ دو اور دو چار Ù†Ûیں Ø¨Ù„Ú©Û Ú†Ø§Ù„ÛŒØ³ Ûوتے Ûیں۔ یقین Ù†Û Ø§Ù“Ø¦Û’ تو خود Ø+ساب کرکے دیکھ لیجیے۔ Ùرض کیجیے Ú©Û Ø§Ù“Ù¾ دس مرغیوں سے مرغبانی Ú©ÛŒ ابتدا کرتے Ûیں۔ ایک اعلیٰ نسل Ú©ÛŒ مرغی سال میں اوسطاً دو سو سے ڈھائی سو تک انڈے دیتی ÛÛ’Û” لیکن آپ Ú†ÙˆÙ†Ú©Û Ùطرتاً قنوطی واقع Ûوئے Ûیں۔ اس لیے ÛŒÛ Ù…Ø§Ù†Û’ لیتے Ûیں Ú©Û Ø§Ù“Ù¾ Ú©ÛŒ مرغی ڈیڑھ سو انڈے دے گی۔‘‘
میں Ù†Û’ ٹوکا، ''مگر میری قنوطیت کا مرغی Ú©ÛŒ انڈے دینے Ú©ÛŒ صلاØ+یت سے کیا تعلق؟‘‘
بولے، ''بھئی آپ تو قدم قدم پر الجھتے Ûیں۔ قنوطی سے ایسا شخص مراد ÛÛ’ جس کا ÛŒÛ Ø¹Ù‚ÛŒØ¯Û ÛÙˆ Ú©Û Ø§Ù„Ù„Û ØªØ¹Ø§Ù„ÛŒÙ° Ù†Û’ آنکھیں رونے Ú©Û’ لیے بنائی Ûیں۔ خیر۔ اس Ú©Ùˆ جانے دیجیے۔ مطلب ÛŒÛ ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ø³ Ø+ساب سے Ù¾ÛÙ„Û’ سال میں ڈیڑھ Ûزار انڈے ÛÙˆÚº Ú¯Û’ اور دوسرے سال ان انڈوں سے جو مرغیاں نکلیں Ú¯ÛŒ ÙˆÛ Ø¯Ùˆ لاکھ پچیس Ûزار انڈے دیں گی۔ جن سے تیسرے سال اسی Ù…Ø+تاط اندازے Ú©Û’ مطابق، تین کروڑ سینتیس لاکھ پچاس Ûزار چوزے نکلیں Ú¯Û’Û” بالکل سیدھا سا Ø+ساب Ûے۔‘‘
''مگر ÛŒÛ Ø³Ø¨ کھائیں Ú¯Û’ کیا؟‘‘ میں Ù†Û’ بے صبری سے پوچھا۔
ارشاد Ûوا، ... ان Ú©ÛŒ خوبی ÛŒÛÛŒ ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ù¾Ù†Ø§ رزق آپ تلاش کرتے Ûیں۔ آپ پال کر تو دیکھیے۔
Ø¯Ø§Ù†Û Ø¯Ù†Ú©Ù‘Ø§ØŒ کیڑے Ù…Ú©ÙˆÚ‘Û’ØŒ کنکر، پتھر Ú†Ú¯ کر اپنا پیٹ بھرلیں گے۔‘‘
پوچھا، ''اگر مرغیاں پالنا اس قدر آسان Ùˆ Ù†Ùع بخش ÛÛ’ تو آپ اپنی مرغیاں مجھے کیوں دینا چاÛتے Ûیں۔‘‘
Ùرمایا، ''ÛŒÛ Ø§Ù“Ù¾ Ù†Û’ Ù¾ÛÙ„Û’ ÛÛŒ کیوں Ù†Û Ù¾ÙˆÚ†Ú¾ لیا، ناØ+Ù‚ رد Ùˆ قدØ+ کی۔ آپ جانتے Ûیں میرا مکان Ù¾ÛÙ„Û’ ÛÛŒ کس قدر مختصر ÛÛ’Û” آدھے میں ÛÙ… رÛتے Ûیں اور آدھے میں مرغیاں۔ اب مشکل ÛŒÛ Ø§Ù“ Ù¾Ú‘ÛŒ ÛÛ’ Ú©Û Ú©Ù„ Ú©Ú†Ú¾ سسرالی عزیز چھٹیاں گزارنے آرÛÛ’ Ûیں۔ اس لیے۔۔۔‘‘
اور دوسرے دن ان Ú©Û’ نص٠مکان میں سسرالی عزیز اور Ûمارے گھر میں مرغیاں آگئیں۔
اب اس Ú©Ùˆ میری Ø³Ø§Ø¯Û Ù„ÙˆØ+ÛŒ Ú©Ûیے یا خلوص نیت Ú©Û Ø´Ø±ÙˆØ¹ شروع میں میرا خیال تھا Ú©Û Ø§Ù†Ø³Ø§Ù† Ù…Ø+بت کا بھوکا ÛÛ’ اور جانور اس واسطے پالتا ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ù¾Ù†Û’ مالک Ú©Ùˆ Ù¾Ûچانے اور اس کا Ø+Ú©Ù… بجا لائے۔ گھوڑا اپنے سوار کا آسن اور Ûاتھی اپنے Ù…Ûاوت کا آنکس Ù¾Ûچانتا ÛÛ’Û” کتا اپنے مالک Ú©Ùˆ دیکھتے ÛÛŒ دم Ûلانے لگتا ÛÛ’Û” جس سے مالک Ú©Ùˆ روØ+انی خوشی Ûوتی ÛÛ’Û” سانپ بھی سپیرے سے ÛÙÙ„ جاتا ÛÛ’Û” لیکن مرغیاں!
میں Ù†Û’ آج تک کوئی مرغی ایسی Ù†Ûیں دیکھی جو مرغ Ú©Û’ سوا کسی اور Ú©Ùˆ Ù¾Ûچانے اور Ù†Û Ø§ÛŒØ³Ø§ مرغ نظر سے گزرا جس Ú©Ùˆ اپنے پرائے Ú©ÛŒ تمیز ÛÙˆÛ” Ù…Ûینوں ان Ú©ÛŒ داشت اور سنبھال کیجیے۔ برسوں Ûتھیلیوں پر چگائیے۔ لیکن کیا مجال Ú©Û Ø§Ù“Ù¾ سے ذرا بھی مانوس Ûوجائیں۔ میرا مطلب ÛŒÛ Ù†Ûیں Ú©Û Ù…ÛŒÚº ÛŒÛ Ø§Ù…ÛŒØ¯ لگائے بیٹھا تھا Ú©Û Ù…ÛŒØ±Û’ دÛلیز پر قدم رکھتے ÛÛŒ مرغ سرکس Ú©Û’ طوطے Ú©ÛŒ مانند توپ چلا کر سلامی دیں Ú¯Û’ØŒ یا چوزے میرے پاؤں میں ÙˆÙادار کتے Ú©ÛŒ طرØ+ لوٹیں Ú¯Û’ØŒ اور مرغیاں اپنے اپنے انڈے ''سپردم بتو مایÛÙ” خویش را‘‘ Ú©Ûتی Ûوئی مجھے سونپ کر الٹے قدموں واپس Ú†Ù„ÛŒ جائیں گی۔ تاÛÙ… پالتو جانور سے Ø®ÙˆØ§Û ÙˆÛ Ø´Ø±Ø¹Ø§Ù‹ Ø+لال ÛÛŒ کیوں Ù†Û ÛÙˆ ÛŒÛ ØªÙˆÙ‚Ø¹ Ù†Ûیں Ú©ÛŒ جاتی Ú©Û ÙˆÛ Ûر چمکتی چیز Ú©Ùˆ چھری سمجھ کر بدکنے Ù„Ú¯Û’ اور Ù…Ûینوں Ú©ÛŒ پرورش Ùˆ پرداخت Ú©Û’ باوجود Ù…Ø+ض اپنے جبلی تعصب Ú©ÛŒ بنا پر Ûر ایک Ú©Ùˆ اپنے خون کا پیاسا تصور کرے۔
انÛیں مانوس کرنے Ú©Û’ خیال سے بچوں Ù†Û’ Ûر ایک مرغ کا علیٰØ+Ø¯Û Ù†Ø§Ù… رکھ چھوڑا تھا۔ اکثر Ú©Û’ نام سابق لیڈروں اور خاندان Ú©Û’ بزرگوں پر رکھے گئے۔ Ú¯Ùˆ ان بزرگوں Ù†Û’ کبھی اس پر اعتراض Ù†Ûیں کیا مگر Ûمارے دوست مرزا عبدالودود بیگ کا Ú©Ûنا تھا Ú©Û ÛŒÛ Ø¨ÛŒÚ†Ø§Ø±Û’ مرغوں Ú©Û’ ساتھ بڑی زیادتی ÛÛ’Û” لیکن ان ناموں Ú©Û’ باوص٠مجھے ایک ÛÛŒ نسل Ú©Û’ مرغوں میں آج تک کوئی ایسی خصوصیت نظر Ù†Û Ø§Ù“Ø¦ÛŒ جو ایک مرغ Ú©Ùˆ دوسرے سے ممّیز کرسکے... اور انÛیں دیکھ کر اپنی بینائی اور Ø+اÙظے پر Ø´Ø¨Û Ûونے لگتا ÛÛ’Û” ممکن ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ù† Ú©ÛŒ شناخت اور تشخیص Ú©Û’ لیے خاص Ù…Ûارت Ùˆ Ù…Ù„Ú©Û Ø¯Ø±Ú©Ø§Ø± ÛÙˆÛ” جس Ú©ÛŒ خود میں تاب Ù†Û Ù¾Ø§Ú©Ø± اپنے Ø+واس Ø®Ù…Ø³Û Ø³Û’ مایوس Ûوجاتا ÛÙˆÚºÛ”
(''چراغ تلے‘‘ سے اقتباس)